اہل سنت والجماعت کے افراد کا ردعمل سوشل میڈیا پر۔

تمام مشرب کے اہل سنت والجماعت سے مخاطب ہو ں اس وقت۔
(صاحب علم علمائے کرام وتہذیب یافتہ سنی حضرات اس گفتگو میں مخاطب نہیں ہیں )

بارہا ایسی پوسٹ دیکھنے میں آتی ہے جہاں سنی حضرات مناظرہ کر رہے ہوتے ہیں۔ کبھی وہابیوں سے، کبھی دیوبندیوں سے، کبھی اہل حدیث(بزعم خود) سے، کبھی رافضیوں(شیعوں) سے، کبھی ملحدین سے، کبھی منہاجیوں سے، کبھی قادیانیوں سے اور دیگر فرقے و مذاہب کے لوگوں سے
یہاں مناظرہ و بحث کے لیے فرقے تو الگ الگ ہیں۔عقائد بھی الگ الگ ہیں۔ موضوعات بھی الگ الگ ہیں۔لوگ بھی الگ الگ ہیں۔
مگر زیادہ تر سنیو ں میں ایک بات مشترک ہے۔ وہ یہ کہ حد سے زیادہ بدتمیز ، جاہل ، نا اہل، کم علم، گلی محلے میں پھرنے والے نالائق و اوباش زبان کے استعمال کرنے والے ہیں۔

عقیدہ اہل سنت یعنی عقیدہ حق کو پیش کرنے کے لیے سوشل میڈیا پرزیادہ تر ایسے سنی دستیاب ہیں جن کو بات کرنے کی تمیز نہیں ہے۔ گفتگو کا سلیقہ نہیں ہے۔
جن کی باتوں میں نہ کوئی دلیل ہوتی ہے نا ہی منطقی انداز ہوتا ہے۔

اور سوشل میڈیا پر دستیاب زیادہ تر اہل سنت اس گھمنڈ اور غرور میں ہیں کہ ہم عقیدہ حق کے ماننے والے ہیں تو ہمیں دوسروں کو گالی گلوچ کرنے کا سرٹیفکیٹ ملا ہوا ہے۔ (یاد رہے جو بدتمیز ہیں اُن ہی کو کہہ رہی ہوں)

جہاں کسی وہابی یا اہلحدیث یا رافضی وغیرہ نے بات کرنی شروع کی تو بجائے علمی دلیل اور سنجیدہ گفتگو کے طنز و تحقیر پر اتر آتے ہیں۔
بات ہو نا ہوتی ہے ایک موضوع پر اور یہ سنی حضرات چھیڑ دیتے ہیں دوسرا موضوع۔
ان کے پاس اتنا بھی علم نہیں کہ اسی ایک موضوع پر دلائل کے انبار لگا سکیں جیسا کہ ہمارے بزرگوں کا طریقہ رہا ہے۔
اہل سنت کا کوئی طریقہ ، کوئی عمل ایسا نہیں ہے جس پر علمائے کرام نے دلائل سے بھرپور کتاب نہ لکھی ہو۔ اس کے باوجود کسی ایک موضوع پر بھی دلائل دینے کی اہلیت نہیں ہوتی ہے۔
کہیں کوئی غیر سنی مل گیا تو اس پوسٹ کو پڑھنے والے تمام سنی حضرات اس ایک فرد کو گھیر کر سوالوں کی برسات کر دیتے ہیں۔ وہ بھی مختلف موضوعات پر۔ اتنا شعور نہیں ہوتا کہ ایک ہی موضوع پر پہلے گفتگو کرے ۔ دلائل و براہین سے بات کرے۔ سامنے والے سے رجوع کروا سکے پھر دوسرا موضوع چھیڑے۔

ان کا سب سے پسندیدہ کام ہوتا ہے نسب کی تحقیق کرنا۔ کسی کو بھی حرام نسب کا کہنے اور ثابت کرنے میں ایک منٹ نہیں لگاتے۔ اور یہی طریقہ سنیوں کا آپس میں اختلاف کے حوالے سے بھی ہے۔

براے مہربانی۔ سنیوں اب باز آ جاؤ۔ اور کتنی پستیوں میں گرنا ہے؟؟؟
ہم اہل حق ہیں۔ سچے مذہب کے علمبردار ہیں۔ اصحاب کرام و اسلاف کرام کی روایتوں کے ، ان کے اخلاق کے ، ان کے کردار کے امین ہیں۔
ہم اُس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں جن کے خُلق کو حق نے عظیم کہا ہے۔ جن کے اخلاق کی دھوم سارے جہاں میں مچی ہوئی ہیں۔ جن کے اخلاق و کردار کی بنا پر ہزاروں منکرین نے رجوع و توبہ کی ہے۔

کیوں اپنے اسلاف کی امانتو ں میں خیانت کر رہے ہیں؟؟ کیوں اپنے کردار کو ایسا بنا رہے ہیں کہ سامنے والا شک کرے کہ پتا نہیں یہ کس کا پیروکار ہے۔
ہم وہ لوگ ہیں کہ جن کی گفتگو و کردار سے لوگ ہماری طرف مائل ہونا چاہیے۔ ہم وہ لوگ ہیں کے جن کی گفتار میں رعب، دبدبہ کے ساتھ نرمی و خوش اخلاقی کا امتزاج ہو۔
سامنے والا کتنا ہی گھٹیا کیو ں نہ ہو، اس کی زبان کتنی ہی بے لگا م کیوں نہ ہو، کتنا بدتمیز و نالائق کیوں نہ ہو ہمیں اپنے معیار کو قائم رکھنا ہے۔ سامنے والا بدتمیزی کر کے اپنا معیار بتا رہا ہے۔ ہمیں اس کے سامنے ہر حال میں ادب کے دائرے میں رہ کر، اچھے الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے، تہذیب کے اعلیٰ معیار کا نمونہ پیش کرنا چاہیے۔
کوئی گالی گلوچ کرے گا تو کیا ہم اپنے معیار سے نیچے آ کر اسے گالی گلوچ میں جواب دیں گے؟؟اگر یہ طریقہ درست ہوتا تو ہمارے اسلاف استعمال نہیں کیے ہوتے؟؟
لیکن ہزار ہا طنز کے باجود، ذہنی جسمانی تکلیفیں برداشت کرنے کے باوجود ہمارے اسلاف نے کبھی گالی گلوچ کا طریقہ استعمال نہیں کیا۔ خوبصورت الفاظ و بہترین گفتگو سے تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔

پھر کیوں اہل سنت بھٹک رہے ہیں؟؟ سچے عقیدے کی تبلیغ گالی گلوچ کے ذریعے، طنز کے ذریعے، بدتمیزی کے ذریعے کی جاتی ہے؟؟ کیا اس طریقے سے لوگ اہل سنت والجماعت کی طرف راغب ہوں گے؟؟؟

اور مقرر شعلہ بیان خطیبوں سے بھی میری گذارش ہے کہ براہ مہربانی یہ شعلہ بیانی بند کیجیے۔ جو سنجیدہ انداز ہمارے اسلاف کا رہا ہے اسی کو معیار تبلیغ رہنے دیجیے۔نرمی، بردباری، حلم،فصاحت و بلاغت تو جیسے معدوم ہو گئی ہے مقررین میں۔ چیخ چیخ کر پورا علاقہ سر پر اٹھانا بند کیجیے۔ اگر علمی گفتگو کر رہے ہیں اور حق بات بیان کر رہے ہیں تو دھیرے اور نرم انداز میں بھی بیان کی گئی تو لوگوں کے دل پر اثر ضرور کرے گی۔ چیخ چیخ کر اپنی باتیں اس زمانے میں نہیں منوائی جا سکتی ۔ آواز کو اونچا کرنے یا آواز کو سجانے سنوارنے کے بجائے اپنی گفتگو کوعلمی معیار پر لائیے۔ اپنی گفتگو اور تقریر کو دلائل و منطق سےسجائیے۔ تاکہ عوام ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکالنے کے بجائے کچھ اپنےدل میں لے کر جائے۔
ورنہ وہ وقت دور نہیں ہے جب عوام علمائے کرام کے منہ پر کہے گی کہ سوائے چلانے کے اور کچھ نہیں آتا۔ ایک سوال کر لو تو مضبوط دلیل کے ساتھ جواب دینا نہیں آتا۔

ہمار ے مخالفین ہم سے سبقت لے جا رہے ہیں خوش اخلاقی دکھا کر اور لوگوں کو بہترین اندازِ گفتگو سے رَجھا کر۔
غیروں کی خوش اخلاقی کی وجہ سے لوگ ان کے غلط بات اور غلط عقیدے کو قبول کر رہے ہیں اور ہماری بدزبانی اور بدتمیزی اور جہالت کی وجہ سے لوگ ہمارے سچے عقیدے کو چھوڑ رہے ہیں۔
آج پڑھا لکھا طبقہ زیادہ تر غیر عقیدے والوں کے قبضے میں ہے۔ اور سنیت پر طنز کرتا نظر آ رہاہے۔ یہ ماحول ہم سنیوں کا پیدا کیا ہوا ہے۔

اللہ کا واسطہ ہے سدھر جاؤ۔ ورنہ مالک کے پاس نوکروں کی کمی نہیں ہے۔ جس کام کے لیے ہمیں چنا گیا ہے وہ کام وہ دوسروں سے لینے پر قادر ہے۔

یہ پوسٹ پڑھنے کے بعد یقیناً مفتیان فیس بک کا فتویٰ مجھ پر لگنے والا ہے۔ اس کا مجھے کوئی خوف نہیں ہے۔ کیوں کہ میں نے حقیقت کو ہی بیان کیا ہے۔

ایک بات یاد رکھنا۔ خوش اخلاقی اور اعلیٰ کردار وہ مضبوط ہتھیارہے جس سے پتھر دل نرم ہو جایا کرتے ہیں۔ اچھے الفاظ کا استعمال اور خوب صورت اندازِ گفتگو ایک ایسا وصف ہے جس سے لوگ پہلے ہی متاثر ہو جایا کرتےہیں۔ اچھی بات کو اگر اچھے الفاظ کے ساتھ پیش کیا جائے تو سننے والا ضرور متاثر ہوتا ہے اور سوچنے پر مجبور ہوتا ہے۔
انداز میں سختی اور نرمی حالات کے حساب سے ہوا کرتی ہے۔ مگر الفاظ ہمیشہ اعلیٰ قسم کے استعمال کرنا چاہیے۔
جب حد سے زیادہ غصہ آ بھی جائے کسی بات پر تب بھی الفاظ بہترین ہونے چاہیے ۔ اعلیٰ ترین الفاظ کا استعمال کرکے غصہ کیا جانا چاہیے۔ تاکہ بدتمیزی نہ کہلائی جا سکے۔ تھرڈ کلاس لینگویج نہ کہلائی جا سکے۔
پتہ نہیں لوگوں کو میری بات سمجھ میں آ رہی ہے یا نہیں۔ اللہ رحم فرمائے۔

نوٹ:
یہ پوری پوسٹ میرا اپنا مؤقف ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے۔ اس لیے جو کہنا ہے مجھے براہ راست کہا جائے۔ میرے مذہب و مسلک و مشرب کو تنقیدکا نشانہ بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔
جسے اختلاف کرنا ہو وہ بھی اچھے الفاظ کے ساتھ اختلاف کرے۔ بدتمیزی اور بے ہودہ زبان کااستعمال کرنے والوں کو فوراً میں دفع کر دوں گی میری لسٹ سے۔
پوسٹ پڑھنے والے قارئین سے گزارش ہے کہ اُن تمام اہل سنت کے افراد کو یہ میسج بھیجیں جو بدتمیز ہیں، جاہل ہیں، ہٹ دھرم ہیں۔

علمائے کرام اصلاح فرمائیں۔
شکریہ

(عروہ فاطمہ )

Leave a comment